ایک مجلس میں تین طلاق کا مسئلہ

ایک مجلس میں تین طلاق کا مسئلہ



فقہ کی روسے مسئلہ میں پہلے قرآن پاک اور اس کے بعد حدیث کو دیکھنا ہوگا ۔ اگر قرآن میں کسی مسئلہ کی وضاحت ہو تو آگے دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ اسی طرح اگر واضح حدیث مل جائے تو نبیﷺ کے قول کے سامنے صحابہ کے قول کی اہمیت نہیں ۔
قرآن پاک میں ہے :-
”اور جن عورتو ں کو ( انکے شوہر وں نے ) طلاق دے دی ہو تو انہیں چاہیئے ماہواری کے تین مہینوں تک اپنے آپ کو (نکاح ثانی سے) روکے رکھیں ۔ اور اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں تو انکے لئے جائز نہیں کہ جو چیز اللہ نے انکے پیٹ میں پیدا کر دی ہو اسے چھپائیں اور انکے شوہر ( جنہوں نے طلاق دی ہے ) اگر (عدت کے ) اس (مقررہ زمانے ) کے اندر اصلاح حال پر آمادہ ہو جائیں تو وہ انہیں اپنی زوجیت میں لینے کے زیادہ حقدار ہیں ۔ “
(سورة بقرہ ۔ آیت ۸۲۲ ترجمان القرآن ۔ ابوالکلام آزاد)
اللہ نے عدت کے اندر شوہر کو طلاق کے رد کرنے کا حق دیا ہے ۔ اللہ کے دیئے ہوئے اس حق کو چھیننے کا حق کسی کو نہیں۔
قرآن پاک میں مزید ارشاد ہے
” طلاق دو ہی مرتبہ ہے اس کے بعد یا تو شریعت کے مطابق روک ہی لینا چاہئے یا حسن سلوک سے بالکل رخصت ۔“
(سورة بقرہ ۔ آیت ۔ ۹۲۲ ترجمہ فرمان علی)
” طلاقیں دو مرتبہ ہیں ، پھر یا تو اچھائی کے ساتھ روکنا یا عمدگی کے ساتھ چھوڑنا ہے ۔ “
(ترجمہ محمد علی جوناگڑھی شاہ فہد قرآن کریم پرنٹنگ کمپلیکس۔ سعودی عربیہ)
اس آیت کی روسے طلاق دو مرتبہ ہے ۔پھر یا تو اچھائی کے ساتھ روکنا یا عمدگی کے ساتھ چھوڑدینا ہے ۔ دومرتبہ کا معنی دو الگ الگ مرتبہ ہوتا ہے ۔ ایک دن میں پانچ بار نماز ہوتی ہے ۔ اگر ایک ہی بار پانچ وقت کی نماز پڑھ لیں تو ……..؟ شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی ۔ ایک دن میں دوبار کھانا ہے ۔ اگر یہ ہی بار میں دو وقت کی خوراک دے دی جائے تو ……..؟ صحت کا اصول اور انسان کا مزاج اس کی اجازت نہیں دیتا ۔ اسی طرح اللہ نے بھی دو بار فرما یا ۔ جس کا مفہوم ہے دو الگ الگ مرتبہ ۔
ایک اور اہم نکتہ ، طلاق کے بعد پھر سے ملاپ یا دائمی جدائی کی بات جہاں جہاں قرآن میں آئی ہے ، وہاں اللہ نے ملاپ کا ذکر پہلے کیا ہے ، اگر یہ ممکن نہ ہو سکے تب ہی دائمی جدائی والا معاملہ آئے گا ۔ قرآن کے طرز گفتگو اور مغز گفتگو پر غور کرنا سارے ایمان والوں کا فریضہ ہے ۔ طلاق کے بعد بھی اللہ کو جدائی سے زیادہ ملاپ پسند ہے ۔
اب ہمیں دیکھنا ہے کہ اس معاملے میں ہمارے نبی ﷺ کا کیا حکم ہے ۔
ابوداﺅد کتاب الطلاق میں ایک حدیث اس طرح درج کی گئی ہے :-
” عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ عبد یزید نے جو رکانہ اور اس کے بھائیوں کا باپ تھا ، ام رکانہ ( اپنی بی بی ) کو طلاق دے دی اور ایک عورت سے جو مزینہ کے قبیلے میں سے تھی نکاح کیا۔ وہ عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور بولی یا رسول اللہ ابورکانہ میرے کام کا نہیں مگر بال برابر اور ایک بال اس نے اپنے سر کا پکڑا ( یعنی میری حاجت روائی اس سے نہیں ہو سکتی ) رسول اللہ ﷺ یہ سن کر گرم ہوئے اور رکانہ اور اس کے بھائیوں کو بلا بھیجا پھر آپ نے لوگوں سے فرما یا کیا تم فلاں لڑکے کو دیکھتے ہو کتنا مشابہ ہے ابورکانہ سے ۔ لوگوں نے کہا ہاں (غرض یہ ہے ) عبد یزید کی اولاد موجود ہے پھر کیوں کر ہو سکتا ہے کہ وہ اس عورت کے بیان کے موافق نامرد ہو ۔ پھر آپ نے فرما یا طلاق دے دے اس عورت کو اور رجعت کر لے ام رکانہ سے ۔ ابورکانہ (عبد یزید ) بولا یا رسول اللہ میں نے اس کو تین طلاق دی ۔ آپ نے فرما یا جانتاہوں ، تو اس سے رجعت کر لے اور یہ آیت پڑھی :
یا ایہا النبی اذا طلقتم النساءفطلقوھن لعدتہن
امام ابوداﺅدنے کہا اس حدیث کو نافع بن عجیر اور عبد اللہ بن علی بن یزید بن رکانہ نے اپنے باپ سے روایت کیا۔ انہوںنے اپنے دادا سے کہ رکانہ نے طلاق دی اپنی عورت کو پھر رسول اللہ ﷺ نے وہ عورت اس کو دلوادی اور یہ زیادہ صحیح ہے ۔ کیوں کہ رکانہ کے گھر والے اس قصہ کو خوب جانتے ہوں گے کہ رکانہ نے اپنی بی بی کو تین طلاق دی اور رسول اللہ ﷺ نے اس کو ایک کیا ۔ “
( ابوداﺅد ۔ اعتقاد پبلشنگ ہاﺅس ۔ دہلی، جلد دوم ۔ ص۔ ۶۷۱۔۵۷۱)
اس طریقہ میں تبدیلی کی خلیفہ¿ دوم حصرت عمر فاروق ؓ نے۔صحاح ستہ کی مشہور کتاب ابوداﺅد کتاب الطلاق میں درج ہے :
” طاﺅس سے روایت ہے کہ ایک شخص ابو الصہبا نامی بہت مسئلے پوچھتا تھا ، ابن عباس سے ایک بار اس نے پوچھا تم تو جانتے ہو کہ جب کوئی شخص اپنی عورت کو تین طلاق دیتا دخول سے پہلے تو وہ ایک طلاق گنی جاتی رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اور شروع عمر کے زمانے میں ۔ ابن عباس نے کہا ہاں جب کوئی شخص اپنی عورت کو جماع سے پہلے تین طلاق دے دیتا تو وہ ایک ہی طلاق شمار کی جاتی رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر اور عمر کے شروع زمانے تک۔ جب عمر نے دیکھا لوگ بہت طلاق دینے لگے تو حکم کیا تینوں طلاق ان پر نافذ کرنے کا۔ “
(ابوداﺅد ۔ کتاب النکاح حدیث ۔ ۲۳۴)
” احمد بن صالح ، عبد الرزاق ، ابن جریج، ابن طاﺅس ، ابو الصہباءنے ابن عباس سے کہا کہ تین طلاق رسول اللہ ﷺ اور ابو بکر اور عمر کی خلافت میں تین سال تک ایک طلاق شمار کی جاتی تھی ؟ ابن عباس نے کہا ہاں ۔ “
( ابوداﺅد۔ کتاب النکاح حدیث ۔ ۳۳۴)
حضرت عمر کا انتظامی حکم یا ADMINISTRATIVE ORDER ان کے عہد تک لاگو ہوتا ہے ۔ کسی مصلحت یا ضرورت کے تحت انہوںنے کچھ بھی حکم دیا تو اس حکم سے قرآن یا حدیث کا حکم رد نہیں ہو سکتا ۔
ایک اور اہم بات ، جب چاہا زبان سے طلاق کے الفاظ نکال دیئے ، اس بات کی اجازت قرآن نہیں دیتا ۔ طلاق دینے کے لئے خاص وقت کا انتظار کرنا پڑے گا۔
قرآن میں ہے :
” اے پیغمبر ( آپ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ ) جب تم لوگ (اپنی)عورتوں کو طلاق دینے لگو تو ان کو ( زمانہ¿ ) عدت ( یعنی حیض)سے پہلے ( یعنی طہر میں ) طلاق دو اور تم عدت کو یاد رکھو اور اللہ تعالیٰ سے ڈر تے رہو جو تمہارا رب ہے، ان عورتوں کو انکے (رہنے کے ) گھروں سے مت نکالو( کیونکہ سکنی مطلقہ کا مثل منکوحہ کے واجب ہے ) اور نہ وہ عورتیں خود نکلیں ۔ مگر ہاں کوئی کھلی بے حیائی کریں تو اور بات ہے۔ یہ سب خدا کے مقرر کئے ہوئے احکام ہیں ۔ اور جو شخص احکام خدا وندی سے تجاوز کرے گا ( مثلاً اس عورت کو گھر سے نکال دیا ) اس نے اپنے اوپر ظلم کیا۔ تجھ کو خبر نہیں شاید اللہ تعالیٰ بعد اس ( طلاق دینے ) کے کوئی نئی بات ( تیرے دل میں ) پیدا کردے ( مثلاًطلاق پر ندامت ہو تو رجعی میں اس کا تدارک ہو سکتا ہے ۔ )پھر جب وہ مطلقہ عورتیں اپنی عدت گزارنے کے قریب پہنچ جائیں ( تو تم کو دو اختیار ہیں یا تو ) ان کو قاعدے کے مطابق نکاح میں رہنے دو یا قاعدہ کے مطابق ان کو رہائی دو اور آپس میں دو معتبر شخصوں کو گواہ کر لو ۔ ( اے لوگوں اگر گواہی کی حاجت پڑے تو ) ٹھیک ٹھیک اللہ کے واسطے ( بلا رو رعایت ) گواہی دو ‘ اس مضمون سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ پر اور یوم قیامت پر یقین رکھتا ہو۔ اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ( مضرتوں سے) نجات کی شکل نکال دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق پہنچاتا ہے جہاں اس کا گمان بھی نہیں ہوتا ۔ اور جو شخص اللہ پر توکل کر ے گا تو اللہ اس ( کی اصلاح مہمات ) کے لئے کافی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپناکام ( جس طرح چاہے ) پورا کر کے رہتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہر شئے کا ایک اندازہ ( اپنے علم میں ) مقرر کررکھا ہے ۔ (اوپر عدت کا اجمالاً ذکر تھا ) اور( تفصیل یہ کہ ) تمہاری مطلقہ بیبیوں میں سے جو عورتیں (بہ و جہ زیادہ سن کے حیض آنے سے مایوس ہو چکی ہیں اگر تم کو ان کی عدت کی تعین میں ) شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہیں اور اسی طرح جن عورتوں کو ( اب تک بہ وجہ کم عمری کے ) حیض نہیں آیا ۔ اور حاملہ عورت کی عدت اس حمل کا پیدا ہو جانا ہے ۔ اور جو شخص اللہ سے ڈرے گا اللہ تعالیٰ اس کے ہر کام میںآسانی کر دے گا ۔ یہ ( جو کچھ مذکورہوا ) اللہ کا حکم ہے جو اس نے تمہارے پاس بھیجا ہے ۔ اور جو شخص (ان معاملات میں اور دوسرے امور میں بھی ) اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے گناہ دور کر دے گا ( کہ مضرت عظیمہ کا سبب ہے )اور اس کو بڑا اجر دے گا ۔ تم ان (مطلقہ ) عورتوں کو اپنی وسعت کے موافق رہنے کا مکان دو جہاں تم رہتے ہو ۔ “
(سورة طلاق ۔ آیت ۱ سے ۵ترجمہ اشرف علی تھانوی)
سورة طلاق کی ان آیتوں سے چند احکام واضح ہوتے ہیں ۔ پہلی آیت میں عدت کا لفظ دو بار آیا ہے ۔ عدت کے اندر طلاق دینا ہو گا اور عدت کا حساب رکھنا ہوگا ۔ عدت کے باہر دی گئی طلاق مذکورہ آیت کے حساب سے قابل قبول نہیں ہونا چاہئے ۔ حضرت عبد اللہ ابن عمر کی حدیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے ۔
” حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی ۔ حضرت عمر نے رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا تو رسو ل اللہ ﷺ اس بات سے ناراض ہوئے اور فرمایا کہ اس سے رجوع کر ے ۔ پھر پاک ہونے تک اسے اپنے پاس رکھے پھر حیض آئے اور پاک ہو جائے ۔ اب اگر طلاق کا ارادہ ہے تو ہاتھ لگا نے سے پہلے پاکی کی حالت میں طلاق دے ۔ یہ وہ عدت ہے جس کا عورتوں کو طلاق دینے کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے ۔ دوسری روایت میں ہے کہ اس سے رجوع کرے اور پاکی یاحمل کی حالت میں طلاق دے ۔ “
( مشکوٰة شریف ۔ جلد دوئم کتاب النکاح حدیث ۵۳۱۳)
حدیث کے احکام بالکل واضح ہیں ۔ طلاق نہیں ہوئی ، دونوں ساتھ رہو ۔ ایک ماہ کے بعد جب حیض ہو گا تب سوچنا کہ کیا کرنا ہے ۔
دوسری حدیث میں آیا ہے :
” حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت سے کہ طلاق دی انہوں نے اپنی بیوی کو وہ حائضہ تھی ۔ حضرت عمر نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں یہ تذکرہ کیا بطور استفتیٰ کے یعنی یہ بات دریافت کرنے کو کہ عبد اللہ کا یہ طلاق دینادرست ہے یا نہیں ۔ آپﷺ نے حضرت عمرؓ کو فرمایا عبد اللہ سے کہو وہ رجوع کر ے ۔ یعنی اس طلاق کو توڑ ڈالے اور اس عورت کی اپنی جو ڑو بنالے پھر چھوڑدے اس کو پاک ہونے تک ، جب وہ پاک ہو جائے اپنے حیض سے اور پھر دوسری بار حائضہ ہو کر پاک ہو جائے تب اگر اس کا جی چاہے تو اس سے جدائی کرے جماع کرنے سے پہلے اور اگر چھوڑنے کو جی نہ چاہے تو رکھ لے اس واسطے کہ اللہ بزرگی اور عزت والے نے عورتوں کو اس عدت کے موافق طلاق دینے کا حکم کیا ہے ۔ ‘ ‘
(سنن نسائی شریف ۔ جلد دوئم کتاب الطلاق ۔ حدیث ۲۲۴۳)
سورة طلاق کی آیت میں واضح حکم ہے کہ طلاق شدہ بیوی کو عدت کے اندر شوہر گھر سے نہیں نکال سکتا ۔ بیوی خود بھی چاہے تو نہیں نکل سکتی یعنی اللہ نے دونوں طرف گرفت لگا رکھی ہے ۔ صرف اتناہی نہیں ایک عدت تک دونوں کو ایک ہی گھر میں رہنا ہوگا ۔ شوہر اگر بیوی کے رہنے کا انتظام کسی دوسرے گھر میں کرنا چاہے تو اس کی اجازت قرآن کی رو سے نہیں ۔
اللہ نے ایک عدت تک دونوں کو ایک گھر میں رہنے کا حکم دیا ہے جس کا واضح مقصد ہے کہ دونوں میں پھر سے اپنا پن ، جس کا ذکر اللہ نے اس آیت میں بھی کیا ہے ۔ طلاق کے بعد بیوی کو شوہر کے گھر سے الگ کردینے والے اپنے عمل کا کمزور جواز بھی پیش نہیں کر سکتے ۔
ایک حدیث ملاحظہ ہو :-
” ہم سے امام مالک ؒ نے انہوںنے یحییٰ بن سعید انصاریؓ سے انہوںنے قاسم بن محمد اور سلیمان بن یسار سے وہ دونوں بیان کرتے تھے کہ یحییٰ بن سعید بن عاص نے عبد الرحمن بن حکم کی بیٹی (عمرہ ) کو طلاق دیا تو اس کا باپ عبد الرحمن اپنی بیٹی کو وہاں سے اٹھا لا یا ۔ یہ خبر سن کر حضرت ام المومنین عائشہؓ نے مروان ( لڑکی کے چچا)کو جو ( ان دنوں معاویہ کی طرف سے مدینہ کا حاکم تھا ) کہلا بھیجا،ارے خدا سے ڈرو اور لڑکی کو اسی گھر میں بھیج دو جہاں اس کو طلاق دیا گیا ہے ، اب سلیمان یوں بیان کرتے ہیں کہ مروان نے حضرت عائشہ کو یہ جواب دیا ۔ عبد الرحمن بن حکم ( لڑکی کے باپ ) نے مجھ کو مجبور کر دیا ( میرا کہنا نہیں مانتا ) قاسم بن محمد یہ کہتے ہیں مروان نے یہ جواب دیا ۔ ام المومنینؓ تم کو فاطمہ بنت قیس کی حدیث نہیں پہنچی ۔ حضرت عائشہؓ نے کہافاطمہ کا قصہ اگر تو نہ بیان کرے تو بھی کیا نقصان ہے ۔ مروان نے کہا اگر فاطمہ کے نکلنے کا یہ سبب تھا کہ اس میں اور خاوند کے عزیزوں میں آئے دن ٹنٹا جھگڑا رہتا تو یہاں یہی میاں بی بی میں جو جھگڑاہے وہ مکان سے نکلنے کے لئے کافی ہے ۔ “
(بخاری شریف جلدسوم ۔ کتاب الطلاق ۔ حدیث ۷۹۲)
بخاری شریف کتاب الطلاق کی حدیث نمبر ۹۹۲ بھی اسی مفہوم کی ہے ۔
ایک اور حدیث :
” ہم سے عمر و بن عباسؓ نے بیان کیا ۔کہا ہم سے عبد الرحمن بن مہدی نے کہا ہم سے سفیان ثوری نے انہوںنے عبد الرحمن بن قاسم سے انہوںنے اپنے والد سے انہوںنے کہا عروہ نے حضرت عائشہؓ سے ذکر کیا۔ آپ نے (عمرہ)بنت حکم کو دیکھا اس کے خاوند نے اس کو طلاق بائن دی تو وہ( عدت کے اندرہی )اس کے گھر سے نکل گئی۔ حضرت عائشہؓ نے کہا ، اس نے برا کیا ۔ عروہ نے کہا آپ نے فاطمہ بنت قیس کی روایت نہیں سنی انہوںنے کہا فاطمہ کے لئے اس حدیث کا بیان کرنا اچھا نہیں (کیونکہ دوسرے لوگ بھی اس سے نکل جانا جائز سمجھیں گے ۔ حالانکہ فاطمہ کے لئے یہ خاص اجازت تھی ) اور عبد الرحمن بن ابی الزناد نے ہشام سے انہوں نے اپنے والد (عروہ ) سے اس حدیث میں اتنا زیادہ کیا ہے کہ حضرت عائشہؓ نے فاطمہ بنت قیس پر بڑا عیب لگا یا ۔ حضرت عائشہؓ نے کہا (طلاق کے وقت ) ایک اجاڑ مکان میں رہتی تھی ۔ ڈر ہوا کہیں بدکار لوگ اسے ستائیں نہیں ۔ اس لئے آں حضرتﷺ نے نقل مکان کی اس کو اجازت دی تھی ۔ “
(بخاری شریف جلد سوم ۔ کتاب الطلاق حدیث ۸۹۲،اعتقاد پبلشنگ ہاﺅس دہلی ۔ ص۔ ۰۸۱)
فاطمہ بنت قیس نے سابق شوہر کا گھر چھوڑ نے کی وجہ بتائی ہے ۔
”فاطمہ سے روایت ہے کہا میں نے یا رسول اللہ میرا خاوند طلاق دے چکا مجھ کو تین طلاقیں میں ڈرتی ہوں نہ آجاوے میرے پاس کوئی چو رو غیرہ آپنے حکم دیا اس کو وہ وہاں سے چلی آئی ۔ “
(سنن نسائی شریف ۔ جلد دوم ۔ کتاب الطلاق ۔ حدیث ۰۸۵۳)
عدت کے اندر طلاق شدہ بیوی کو شوہر کے گھر سے نکلنے کی اجازت صرف فاطمہ بنت قیس کے لئے خاص ہے ۔ اس کا شوہر بہت دور یمن میں رہتا تھا ۔ گھر میں شوہر نہیں تھا ۔ اس گھر میں فاطمہ بنت قیس نے اپنے لئے خطرہ محسوس کیا ۔ اسی وجہ سے رسول پاک ﷺ نے اسے دوسرے گھر میں جانے کی اجازت دی ۔ عدت کے بعد اسی فاطمہ بنت قیس کا نکاح اسامہؓ بن زیدؓ سے ہوا ۔ فاطمہ بنت قیس کو دی گئی خاص اجازت کو ام المومنین حضرت عائشہؓ نے دیگر عورتوں کے لئے عام کرنے سے منع کیا ہے ۔
قرآن اور حدیث سے طلاق کے متعلق کئی باتیں واضح ہوتی ہیں :-
(۱) حالت حیض میں دی گئی طلاق نافذ نہیں ہوتی ۔
(۲) ایک یا دو یا تین طلاق کے بعد بھی عدت کے اندر شوہر کو طلاق رد کرنے کاحق حاصل ہے ۔
(۳) طلاق (ایک ، دو یا تین ) کے بعد بھی عدت تک شوہر اور بیوی کو ایک جگہ رہنا ہوگا۔ سورة طلاق میں اللہ نے یہ امید دلائی ہے کہ ایسا کرنے سے ممکن ہے کہ پھر سے ایک ہونے کی صورت پیدا ہو جائے ۔
(۴) شوہر بیوی کی آپسی گفتگو ، نوک جھونک یا جھگڑا تکرار سے طلاق مکمل نہیں ہوتی ۔ طلاق کو فائنل کرنے کے لئے دو عادل گواہ کی ضرورت ہے ۔ قرآن نے ذوی عدل کا ذکر کیا ہے ۔
(۵) طلاق ایک اتفاقی یا ناگہانی عمل نہیں ۔ ایک لمبا PROCESS ہے جس کی تکمیل کے لئے ایک عدت چاہیئے۔
مسلمان اپنے اللہ کا بندہ اور اپنے نبی کی امت ہے ، خلیفہ یا امام کا بندہ یا امت نہیں ۔ قرآن اور حدیث میں واضح حکم مل جانے کے بعد کسی او رکی جانب دیکھنا غیرضروری ہے ۔
غزالہ ہاشمی
ریسرچ اسکالراردو ڈپارٹمنٹ
بہار یونیورسٹی مظفر پور
موبائل نمبر- 8877231876
9771219382

You May Also Like

Leave a Reply